مشکلات کا سامنا سبھی کو کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں کسی نہ کسی وقت مشکل یا پریشانی ہر ایک کو پیش آتی ہے۔ اگر دوچار پریشانیاںجمع ہوجائیں تو کہا جاتا ہے کہ مصائب کاپہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ مشکلات اور برے دنوں سے نجات کی تمنا کس کو نہیں ہوتی۔
جب ہم کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے کوشش کی راہ میں کئی قسم کی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں جب ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی قدرت ہم میں نہیں رہتی تو ہم جھنجھلاتے ہیں اور ہمت ہار بیٹھتے ہیں جہاں ہم نے ہمت ہاری بس سمجھ لیجئے رائی بھی پہاڑ بن گئی اب پہاڑ ہم کیسے عبور کریں؟ کیسے کرنے کی بات تو بعد میں پیدا ہوگی‘ پہلے یہ بات ذہن میں اچھی طرح محفوظ کرلیجئے کہ اس پہاڑ کو تو عبور کرنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ راستے میں حائل ہے جو کامیابی تک پہنچتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ اس پہاڑ کو عبور کرنے کا خیال دل سے نکال دیں گے تو پھر یقین کیجئے کہ مصیبتوں سے چھٹکارا پانا آپ کے بس کی بات نہیں رہے گا۔
مشکلات آپ کو اس وقت تک مصروف رکھتی ہیں جب تک آپ ان سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیں جب تک آپ کے اندر مستقل عمل کی کیفیت پیدا نہ ہو اور آپ یکسو نہ ہوں اس وقت تک سکون ممکن نہیں۔ چنانچہ مشکلات کا ذکر بعض اوقات بے معنی سالگتا ہے۔ ان کا مقابلہ ہی آپ کو ان پر کامیابی اور فتح سے ہمکنار کریگا۔
مشکلات صرف اپنے ہی لیے عمل کرنے پر نہیں آمادہ کرتیں بلکہ دوسروں کے آڑے وقت میں کام آنے کیلئے بھی آمادہ کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی کہ آپ نے جو کچھ عمل کیا ہے اس کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ اب تک آپ نے اپنی دقتوں پر عبور حاصل کرنے کیلئے کون سی راہیں اختیار کی ہیں کن سے آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کتنی ناکامی‘ ناکامی کی وجوہ کیا تھیں اور آپ ان سے کیوں کربچ سکتے ہیں؟
مشکلات آپ کو بتاتی ہیں کہ آپ کاماحول ان کے پیدا کرنے میں اور ان کو دور کرنے میں کتنا دخل رکھتا ہے۔ آپ اپنے اس گردوبیش کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے اور اپنی راہ آپ پیدا کرنے کیلئے کون سا طریقہ اختیار کریں۔ مشکلات آپ میں ہمت‘ برداشت اور صبر کی قوت پیدا کرتی ہیں۔ جتنی بڑی مشکل ہوگی اتنی ہی زیادہ یہ قوتیں آپ میں پیدا ہوں گی۔ مشکلات سے آپ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
مشکلات: شاید آپ کو اعتبار نہ آئے کہ آپ کے اندر اچھے اخلاق اور روحانی قوت پیدا کرتی ہیں۔ آپ میں ارادے کی پختگی‘ کامیابی کی امید‘ صبروسکون کے ساتھ مقابلے کی صلاحیت‘ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے احتیاط کو پیش نظر رکھنے اور مستقل مزاجی اور تدبر اختیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔
ان صفات کی قدر اگر آپ کے دل میں ہے تو یہ مت سوچئے کہ مشکلات اور مصائب آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے ہی آتے ہیں۔ بہت کچھ کھو کر کچھ پانے کا انسانی تجربہ تو بہت پرانا ہے۔ مصیبت کے وقت میں آپ بھی یہی کرتے ہیں پھر اس سے آخر فرق کیا پڑتا ہے جو آپ اپنے دکھوں پر چیخ اٹھتے ہیں؟ یہ چیخ اٹھنا اور ناکامی پر پیچ وتاب کھانا توآپ کی شکست کی دلیل ہے۔ آپ اپنے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ آپ صرف تمنائیں رکھتے ہیں۔ تمناؤں میں سے مناسب اور قابل عمل کا انتخاب اور ان کیلئے جدوجہد کرنا اپنا کام نہیں سمجھتے۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ آپ کی تمناؤں کو کون پورا کرے؟ کیا دوسروں کے پاس اپنی تمنائیں نہیں؟ پھر آخر آپ کے لیے خود سے کون دست بردار ہوجائے؟
ہاں! ایک پہلو سے اور بھی سوچیے! کیا آپ کا محض چیخ اٹھنا اور پیچ وتاب کھانا آپ کی خواہش کو پورا کردے گا؟ اگر نہیں تو اٹھیے اور عمل کیجئے مشکلات سے چھٹکارا پانے کی راہ تلاش کیجئے۔
جب آپ کے سرپر مشکلات منڈلانے لگیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ عقل مندی تو یہ ہے کہ جب آپ طوفان میں گھر جائیں تو بے خوف ہوکر اس کا مقابلہ کریں۔ اس مقابلے کیلئے ضروری ہے کہ آپ پوری توجہ اور غور کے ساتھ پیش آمدہ مشکل کا جائزہ لیں اور پھر اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کریں۔ آپ کے جائزے کا اندازہ کچھ اس طرح ہونا چاہیے:۔
٭ اس مشکل کے پیش آنے کا اصل سبب کیا تھا؟
٭ کہیں اس کا اصل سبب آپ خود تو نہیں تھے؟
٭ آئندہ اگر ایسے مواقع درپیش ہوں تو آپ کیا احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے تاکہ آپ کو ایسے سخت حالات کا مقابلہ پھرنہ کرنا پڑے۔
٭ اس مشکل کے مقابلے کا کارگر طریقہ کون سا ہے؟
٭ کیا آپ اس وقت کوئی ایسا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں جس سے آپ کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے؟
٭ کیا یہ مشکل کی گھڑی آپ کو آپ کی زندگی کیلئے کوئی اچھا سبق دے سکتی ہے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں